قطب الابدال حضرت شیخ احمدعبدالحق ردولوی
رحمتہ اللہ علیہ
آپ اہل حقیقت کے استاد اور ارباب حقیقت کے قبلہ تھے۔حضرت عبد القدوس گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے انوار العیون میں آپ کے حالات کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت شیخ احمد عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ جب سات برس کے تھے تو ہمیشہ اپنی والدہ کے ہمراہ نماز تہجد کے لیے اٹھ جاتے تھے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ محترمہ نے کئی مرتبہ آپ سے کہا کہ ابھی تم پر نماز فرض نہیں ہے لیکن حضرت شیخ احمد عبدالحق کو والدہ کی یہ بات دل کو نہ لگتی تھی کہتے تھے کہ جو کام آپ اپنے لیے پسند کرتی ہو اسے میرے لیے کیوں مضر خیال کرتی ہو۔الغرض جب آپ کی عمر بارہ سال ہوئی تو حق کی تلاش میں گھر سے نکل پڑے۔
اُن دنوں آپ کے بڑے بھائی دہلی میں ایک دینی مدرسے کے سربراہ تھے ۔ حضرت شیخ احمد عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ اس مدرسے میں آ پہنچے۔ آپ کے بھائی نے آپ کو دینی کتابیں پڑھانا شروع کیں لیکن حضرت شیخ احمد عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ کو ظاہری علم سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ مدرسہ چھوڑ کر بیابان میں نکل جاتے اور اللہ کی عبادت مین مشغول رہتے۔ ایک عرصہ تک حضرت شیخ احمد عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ اسی حالت میں رہے پھر غیبی اشارہ پا کر حضرت شیخ جلال الدین رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کے لیے پانی پت پہنچے۔
شیخ جلال الدین پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ کو حضرت شیخ احمد عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ کے آنے کی خبر کشف کے ذریعے معلوم ہوئی۔آپ نے اپنے خادموں کو حکم دیا کہ آج اعلٰی قسم کا کھانا تیار کیا جائے اور کھانے میں کچھ مکرو چیزیں بھی رکھ دی جائیں ۔اس کے علاوہ ہمارے دروازے کے سامنے عمدہ گھوڑے جن پر زریں زینٰیں آراستہ ہوں کھڑے کر دئیے جائیں ۔آج ہمارے پاس ایک مہمان آرہا ہے جس کا امتحان لینا مقصود ہے۔
حضرت شیخ احمد عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ جب آپ رحمۃ اللہ علیہ کے دروازے پر پہنچے تو بڑے عمدہ گھوڑے دیکھے جن پر سونے کی زینیں تھیں۔ پھر اندر داخل ہوئے تو آگے دسترخوان بچھا ہوا تھا جس پر طرح طرح کے کھانے رکھے ہوئے تھے جن میں کچھ مکروہ چیزیں بھی شامل تھیں۔ دل میں خیال آیا کہ جو شخص اتنی شان و شوکت سے رہتا ہے اور جس کے دسترخوان پر مکروہ چیزیں موجود ہیں وہ دنیادار ہے اسے محبت الٰہی سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت شیخ احمد عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ فوراً اس جگہ سے واپس ہوئے اور سارا دن چلتے رہے۔ شام ہوئی تو لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون سی جگہ ہے۔ لوگوں نے بتایا کہ حضرت یہ پانی پت شہر ہے۔ دل میں خیال آیا شاید میں راستہ بھول گیا ہوں۔ رات شہر کے باہر گزاری سارا دن چلتے رہے تو شام کو ایک شہر میں پہنچے جب غور سے دیکھا تو پتہ چلا یہ تو وہی پانی پت شہر ہے۔ تیسرے دن پھر شہر سے نکلے اور ایک جنگل میں پہنچ کر راستہ بھول گئے۔
حضرت شیخ احمد عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ بڑے پریشان ہوئے اور ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گئے۔اتنے میں حضرت شیخ احمد عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ نے دیکھا کہ چند سوار چلے آرہے ہیں جلدی سے اٹھے اور انہیں ہاتھ ہلا کر اپنی طرف متوجہ کیا۔ ان میں سے ایک گھوڑسوار آپ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک آیا اور بولا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت راستہ بھول چکے ہیں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہاں۔ وہ گھوڑسوار گھوڑے کو ایڑ لگاتے ہوئے بولا جناب راستہ تو آپ رحمۃ اللہ علیہ خود ہی گم کربیٹھے ہیں اور اب لوگوں سے پوچھتے پھرتے ہیں۔ یہ کہہ کر سوار اپنے ساتھیوں سمیت چلا گیا۔
اس گھوڑسوار کے یہ الفاظ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے سینے میں تیر کی طرح لگے اور پھر سوچا کہ ہاں میں وہ راستہ تو حضرت شیخ جلال الدین رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ میں گم کرآیا ہوں۔ فوراً پلٹے اور پانی پت میں حضرت شیخ جلال الدین رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ اس وقت شیخ جلال الدین رحمۃ اللہ علیہ اپنی ٹوپی خواجہ شمس الدین ترک رحمۃ اللہ علیہ کے مزار کی گرد میں لپیٹ رہے تھے۔ چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نےوہی ٹوپی حضرت شیخ احمد عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ کے سر پر رکھی اور حلوہ عنایت فرمایا اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے حلقہ ارادت میں شامل کیا۔ ایک طویل عرصے تک حضرت شیخ احمد عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ اسی خانقاہ میں رہے۔
ایک روز شیخ جلال الدین رحمۃ اللہ علیہ نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو سینے سے لگاتے ہوئے خرقہ خلافت عطا کیا اور فرمایا کہ تجھ جیسا اس خانقاہ میں کوئی نہیں تو ہی میری خلافت کا مستحق ہے۔اس کے بعد شیخ جلال الدین رحمۃ اللہ علیہ نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو عبدالحق کا خطاب دیا۔کیونکہ حضرت شیخ احمد عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ ہر وقت حق حق کے نعرے بلند کرتے تھےاس لیے سلسلہ چشتیہ احمدیہ میں لوگ ایک دوسرے کو سلام کرنے کے بعد ایک دوسرے کو تین بار حق حق کہتےہیں۔جب کسی کو خط لکھتے ہیں تو اس کے سرنامے پر بھی تین دفعہ حق حق لکھ دیتے ہیں۔ اس خاندان میں آج تک یہ رسم جاری ہے تاہم بعض علمائے کرام نے اس طریقے کار کو خلاف سنت قرار دیا ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ کے اکثر علما مشائخ نے اس عادت کو چھوڑ دیا ہے لیکن اب بھی اس سلسلہ کے بعض لوگ یہ عادت اپنائے ہوئے ہیں۔
سیرالاقطاب میں لکھا ہوا ہے کہ جب حضرت شیخ احمد عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ کے گھر پہلا بیٹا پیدا ہوا تو اس کا نام عزیز رکھا گیا۔ پیدا ہوتے وقت اس کی زبان پر حق کا لفظ جاری تھا جو سب لوگوں نے سنا جس سے سارے شہر میں شور مچ گیا۔ حضرت شیخ احمد عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا یہ کیسا شور مچا ہوا ہے تو لوگوں نے بتایا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے بیٹے سے جو کرامت ظہورپذیر ہوئی ہے اس کی وجہ سے یہ شور مچا ہوا ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا شور نہیں ہونا چاہیے۔ یہ کہہ کر آپ رحمۃ اللہ علیہ گھر سے باہر نکلے اور قبرستان پہنچ کر ایک جگہ پر نشان لگا کر فرمانے لگے کہ ہمارے بیٹے عزیز کی قبر یہاں پر ہوگی۔ چنانچہ دوسرے ہی دن آپ رحمۃ اللہ علیہ کا بیٹا عزیز فوت ہوگیا۔
حضرت شیخ احمد عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر کسی نے خدا سے لو لگانی ہے اور بارگاہ الٰہی تک رسائی پیدا کرنی ہے اسے چاہیے کہ وہ خود کو فنا کرلے کیونکہ خود کو فنا کرنے کے بعد ہی دل میں عشق الٰہی پیدا ہوتا ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کہا کرتے تھے جس طرح نمک پانی میں مل کر حل ہوجاتا ہے اور اس کی اپنی علیحدہ شناخت ختم ہوجاتی ہے اسی طرح انسان بھی اگر درگاہ خداوندی کا طلب گار ہے تو اپنی ہستی کو ذات الٰہی میں فنا کردے۔
حضرت شیخ احمد عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ ۱۵جمادی الثانی ۸۳۷ہجری کو اس دارفانی سے رخصت ہوئے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی آخری آرام گاہ رودلی انڈیا میں ہے۔